Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

 وہ اس کے متوحش چہرے کو دیکھ رہا تھا پھر اس کے چہرے کے ملکوتی نقوش میں وحشت کی جگہ سراسیمگی نے لے لی تھی اس کے بدلتے احساسات نے طغرل کے تاثرات بھی چھیڑ دیئے وہ بے ساختگی میں اس کے گرتے وجود کو اپنی گرفت میں جکڑے ہوئے تھا اس کے وجود سے اٹھنے والی دھیمی دھیمی مہک اس کے حواس کو مسحور کرنے لگی تھی وہ اس کی مسحور کن قربت میں گم ہونے لگا قبل اس کے کہ کوئی وحشی جذبہ اس کو کمزور کر دیتا معاً اس کی رگ و پے میں ایک برق سی دوڑی تھی اس نے ایک جھٹکے سے اس کو خود سے علیحدہ کیا تھا ، اس کی پیشانی ندام سے عرق آلود ہو گئی تھی۔

”اینی پرابلم! تم اس طرح بھاگی بھاگی کہاں جا رہی تھیں؟“ سرعت سے اس نے اپنے جذبات و احساسات پر قابو پاکر نارمل انداز میں پوچھا ، اس اثناء میں وہ بھی اپنی دھڑکنوں پر گرفت حاصل کر چکی تھی۔


”میں عائزہ کے پاس جا رہی تھی میرا پاؤں سلپ ہو گیا تھا۔“
”ہوں سنبھل کر چلا کرو ، ابھی میں نہ ہوتا تو تمہارے دانت ٹوٹ چکے ہوتے اور مجھے ایسی لڑکیاں بالکل پسند نہیں ہیں۔
“ وہ مسکراتا ہوا دادی کے کمرے میں جانے لگا تو وہ رک کر بولی۔
”دادی جان سو رہی ہیں بہت فکر مند ہو رہی تھیں آپ کی طرف سے ، آپ بھی اتنے خراب موسم میں اتنی دیر تک باہر تھے ، اوپر سے اپنا سیل بھی آف کر رکھا تھا۔“
”دادی جان پریشان ہو رہی تھیں ، تم کو کوئی فرق نہیں پڑتا میرے آنے یا نہ آنے سے… ہیں نا؟“ اس کے بھاری لہجے میں سلگتا ہوا سا شکوہ در آیا تھا۔
قبل اس کے وہ جواباً کچھ کہتی وہ شانے اچکا کر سنجیدگی سے گویا ہوا۔
”ہاں بالکل ، تم کو کوئی فرق نہیں پڑتا ، تم سے تمہارے والدین نے محبت نہیں کی ، اس کا انتقام تم اس سے لو گی جو تم سے محبت کرے گا ، میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟“ اس نے مسکراتے ہوئے پری کی طرف دیکھا جس کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔ ”میں پاگل ہوں جو تم جیسے پتھر سے سر پھوڑ رہا ہوں۔
“ اس نے غصے سے کہا اور دھپ دھپ کرتا چلا گیا۔ پری کے اندر بے چینی سرائیت کر گئی وہ کہاں جا رہی تھی اور کیوں جا رہی تھی ، ذہن سے یکلخت ہی مٹ گیا تھا وہ گم صم انداز میں جاتے ہوئے طغرل کی پشت دیکھ رہی تھی اور اس کا ہر اٹھتا قدم وہ اپنے دل پر محسوس کر رہی تھی نظروں سے اوجھل ہونے تک وہ اس کو دیکھتی رہی تھی۔
”چچ چچ چچ… اتنا ظلم کیوں کر رہی ہو اس بے چارے پر ، اس کی محبت کا جواب محبت سے دو گی تو کیا بگڑ جائے گا تمہارا پری!“ عادلہ جو تمام منظر لاؤنج کی کھڑکی سے دیکھ رہی تھی طغرل کے جانے کے بعد وہاں آکر اس سے اپنے مخصوص انداز میں گویا ہوئی۔
”چھپ چھپ کر دوسروں کی باتیں سننے کی تمہاری عادت جائے گی نہیں۔“ وہ تیوری چڑھا کر سخت ناگواری سے گویا ہوئی۔
”ارے میں نے تو کچھ نہیں کہا ، جب تم دونوں ہی سرعام تماشا دکھانے کی بے شرمی کرتے ہوئے تو میں کیوں اپنے کان اور آنکھیں بند کر لوں ، یہ سب تو تم کو اور طغرل کو چھپ چھپ کر کرنا چاہئے۔“
”کیا کیا ہے ہم نے ایسا جو تم الزام لگا رہی ہو؟“
”اور کیا کسر باقی رہ گئی ہے تم اسی طرح پاپا کی عزت کو مٹی میں ملاتی رہو اور پھر پارسائی و معصومیت کا ڈھونگ رچاتی رہو ، دادی ہمارے اوپر تو بہت انگلیاں اٹھاتی ہیں مگر ان کو اپنی ناک کے نیچے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ہے۔
”کیا ہو رہا ہے عادلہ! کس بات کا شور ہے؟“ صباحت بیگم تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی اس طرف آئی تھیں۔
”مما دیکھیں نا چوری اور سینہ زوری ،بے ہودہ پن ان کے اندر موجود ہے اور تہذیب کے سبق مجھے سکھائے جا رہے ہیں۔“ صباحت کی غیر متوقع آمد اور کشیدہ تیوروں نے پری کے رہے سہے اوسان خطا کر دیئے تھے مارے خوف و گھبراہٹ کے اس کا جسم بے جان سا ہونے لگا کہ بات کو کچھ سے کچھ رنگ دینے میں وہ عادلہ سے بھی زیادہ ایکسپرٹ تھیں اور اس وقت تو موقع بھی نازک تھا۔
”ہوا کیا ہے آخر بتاؤ تو سہی؟“ وہ گم صم پری کو گھورتے ہوئے بولیں۔
”آپ کو معلوم ہے نا پری اور طغرل کی لو اسٹوری کا ، بس میں نے اتفاق سے ان کو ایک دوسرے کے قریب دیکھ لیا تو ان کو اعتراض ہونے لگا اور مجھے مشورہ دیا جا رہا ہے میں چھپ چھپ کر ایسی حرکتیں نہ کروں۔“
”مما ایسی بات نہیں تھی۔“ وہ بے بسی سے رونے لگی۔
”ہونہہ ، جھوٹے لوگوں کی یہی نشانی ہے وہ رو کر اپنے جھوٹ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ، بہت ہو گیا ہے اب میں اس اسٹوری کو زیادہ دن تک چلنے نہیں دوں گی ، فیاض آ جائیں کرتی ہوں ان سے بات۔
“ صباحت کا انداز عادلہ سے بھی زیادہ زہر خند تھا۔
”مما پلیز میری بات پر یقین کریں ایسا کچھ نہیں ہے۔“ اس نے ان کا ہاتھ تھام کر التجائیہ انداز میں یقین دلانے کی کوشش کی ، اس کا بدن کانپ رہا تھا ، پاپا کا نام اس کو نیم مردہ کر گیا جب کہ وہ اس کی بات قطع کرکے نفرت بھرے لہجے میں کہہ رہی تھیں۔
”جس طرح تمہاری ماں مردوں کو اپنا دیوانہ بنانے میں ماہر تھی ، بالکل اسی طرح تم بھی اس کے نقش قدم پر چل رہی ہو ، فیاض بڑے غیرت مند بنتے ہیں بڑی اونچی ناک رکھتے ہیں اب معلوم ہوگا ان کو عزت کس طرح نیلام ہوتی ہے۔
میری عائزہ کو جس طرح سنگدلی سے انہوں نے دھتکارا ہے اس سے کہیں زیادہ تم کو حقارت سے اس گھر سے نہیں نکالیں گے تب تک میں بھی سکون سے رہنے والی نہیں ہوں یاد رکھنا تم۔“
”ممی! آپ جو کہیں گی میں کرنے کو تیار ہوں لیکن پلیز پاپا کو اس معاملے سے دور ہی رکھیں وہ پہلے ہی بے حد پریشان ہیں۔“ وہ روتے ہوئے مسلسل ان کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی ، ان دونوں ماں بیٹی کی آنکھوں میں فاتحانہ چمک ابھری گویا وہ ایسا ہی کمزور پوائنٹ حاصل کرنا چاہ رہی تھیں۔
”اچھا ، اس بات کی کیا گارنٹی ہے جو ہم کہیں گے وہ تم کرو گی؟“ عادلہ نے مسکرا کر کاٹ دار لہجے میں کہا۔
”قسم سے۔“ وہ مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی مجرم بن گئی تھی۔
”عادلہ اس معاملے میں مت بولو ، کل کو کوئی ایسی ویسی بات ہو گئی تو مجھے ہی جوابدہ ہونا پڑے گا تم تو جانتی ہو اپنے پاپا کے غصے کو وہ ابھی تک مجھ سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے ہیں۔
”ایک بار معاف کر ہی دیں ممی۔“ وہ طنزاً مسکرا کر گویا ہوئی۔
###
حاجرہ بڑی نفاست سے سرخ سیب کی قاشیں کاٹ کر کانچ کی سنہری پلیٹ میں رکھ رہی تھی ، اس کی نگاہیں ماہ رخ کے حسین چہرے پر تھیں وہ پچھلے ایک ہفتے سے نڈھال ہو کر بستر دراز تھی ، احمر غفران نے اس کے علاج معالجے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ، بہترین ڈاکٹرز سے رجوع کیا تھا اور سب نے ہی اس کو صحت مند قرار دیا تھا بظاہر تو کوئی بیماری نہ تھی ، احمر غفران کی حیثیت و مرتبے کے باعث طاقت کے ٹانک اور کثرت سے پھلوں کے استعمال کا مشورہ دے کر ڈاکٹرز فرض ادا کرکے چکے تھے۔
احمر غفران نے یہ ذمہ داری حاجرہ اور دلربا کو سونپی تھی دلربا اس کے سامنے دل میں بغض چھپائے محبت جتاتے ہوئے اپنی ڈیوٹی ادا کرتی تھی ، آج احمر غفران اپنی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں کچھ دنوں کیلئے آبائی شہر روانہ ہوا تھا اس کے جانے کے بعد از خود ہاجرہ اس کا بہت خیال رکھ رہی تھی ، ویسے بھی وہ اعوان سے ملاقات کی تمام باتیں اس کو بتا چکی تھی حاجرہ اس کی حالت سے واقف تھی۔
”حاجرہ! میرا دل نہیں چاہ رہا ہے یہ سیب تم کھا لو۔“ اس نے تکیوں کے سہارے نیم دراز ہوتے ہوئے ، نقاہت بھرے لہجے میں کہا۔
”اس طرح مت کرو رخ! میں نے رئیس سے وعدہ کیا ہے میں تمہارا خیال اپنی جان سے بھی بڑھ کر رکھوں گی ، تم نے اس طرح کیا تو میں اپنا وعدہ کس طرح وفا کر سکوں گی؟“ اس نے رسانیت سے سمجھایا تھا۔
”کوئی فائدہ نہیں ہے تم اپنا وقت مجھ پر برباد مت کرو۔
”مایوسی گناہ ہے ماہ رخ! کیوں مایوس ہوتی ہو بیماریاں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں ، یہ سب ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔“
”مایوسی گناہ؟“ ایک تلخ مسکراہٹ اس کے زرد چہرے پر لرزی تھی۔
”جہاں ساری زندگی گناہ بن کر رہ گئی ہو ، وہاں امید کی کرن نمودار نہیں ہوتی اور تم کس بیماری کی بات کرتی ہو حاجرہ! میرا جسم نہیں روح بیمار ہے ، میری روح کو میرے گناہوں کا کوڑھ لگ چکا ہے۔
“ حاجرہ نے پلیٹ ٹرالی میں رکھی تھی اور بڑی محبت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی آمیز لہجے میں بولی۔
”میں تمہارے دکھ سے آشنا ہوں تم پر دوہری قیامت ٹوٹی ہے ، بڑا دکھ تمہیں اعوان کی بد اعتماد کا ملا ہے اور ساحر خان کے مکروہ فریب سے گہرا صدامہ ہو ا ہے۔ پھر اعوان نے تمہارے گھر والوں کے ذکر سے جو تمہارے زخموں سے کھرنڈ نوچ ڈالے ہیں ، ان زخموں سے رستا ہوا خون میری نظرو ں سے اوجھل نہیں ہے۔
“ حاجرہ پورے خلوص سے اس کی دلجوئی میں مصروف تھی۔
”مجھے نہ ساحر کی مکاری پر غصہ ہے نہ ہی اعوان کے رویے کا دکھ ہے۔ مردوں کی فطرت میں جان گئی ہوں بہت بے صبرے اور ضدی ہوتے ہیں یہ لوگ، اپنے مقصد کے حصول کے لیے پیار اور محبت کا ڈھونڈ رچاتے ہیں ،پھر مطلب پورا ہونے کے بعد ٹھوکر مار دیتے ہیں۔“
”ٹھیک کہہ رہی ہو تم رخ! مرد ذات شاید کسی سے محبت کرنا جانتی ہی نہیں ، دھوکہ و فریب ان کی سرشت میں شامل ہے۔
”میں سارے مردوں کو نہیں کہہ رہی ، تمام مرد ایسے نہیں ہوتے کچھ مرد عورتوں کی بے حد عزت کرتے ہیں ، میں نے اپنے باپ کو امی کی محبت و عزت کرتے دیکھا ، چچی بھی چچا سے پیار کرتے تھے گھر میں امی اور چچی کی حکمرانی تھی ، ابو اور چچا نے کبھی ان کو نیچا دکھانے کی سعی نہیں کی ، وہ کبھی اونچی آواز میں بات تک نہیں کرتے تھے۔“ اس کے دل میں پھر یادوں کے گلاب مہکنے لگے تھے۔
”وہ سیاہ فام… گلفام… کیسی چاہت تھی اس کی بادلوں میں چھپے چاند کی مانند وہ جب بھی مجھ سے بات کرتا تھا اس کے لہجے میں انوکھی مہک بسی ہوتی تھی وہ کبھی نگاہیں اٹھا کر بات نہیں کرتا تھا اور اس کی جھکی نگاہیں مجھے طیش دلاتی تھیں ، میں نہ جانے کیا کچھ اس کو کہہ دیتی تھی مگروہ برا نہیں مانتا تھا ، اکثر میں پردے کے معاملے ، میں بے پروائی سے کام لیتی تھی اور کبھی میں اس کے سامنے آ جاتی تووہ اپنے مخصوص انداز میں نرمی سے کہتا تھا… ماہ رخ! عورت کے معنی چھپی ہوئی چیز ہے اور حقیقتاً عورت پردے میں چھپی ہوئی ہی معتبر لگتی ہے۔
”بالکل درست کہتا تھا گلفام! آج اپنی بے پردگی کی قیمت جس طرح ہم ادا کر رہے ہیں وہ ہم ہی جانتے ہیں ، خیر تم ان باتوں کو بھول جاؤ تو بہتر ہے اور تم کو ایک خاص بات بتاؤں اعوان یہاں گیسٹ ہاؤس میں موجود ہے ، مجھے رئیس نے اس کی خدمت پر مامور کیا ہے میں اس کو ساحر خان کا اصل چہرہ ضرور دکھاؤں گی۔“

   1
0 Comments